اب وقت بہت ہے
مختصر
میرے محترم میرے معتبر،
تمہیں ہے پتا؟ کوئی ہے خبر؟
کہ سانسیں کتنی قلیل ہیں،
کہ وقت ہے کتنا مختصر؟
پتھرا گئے کبھی برس گئے،
تیری دید کو دیدے ترس گئے،
نہ اناؤں کی ہی نہ بقا رہی،
نہ خودی کو خود کی رہی خبر،
میرے محترم میرے معتبر،
اب وقت بہت ہے مختصر،
اس مختصر سے وقت میں،
تو اپنی موج و مست میں،
میرا روم روم تیرے درد میں
میرا ہر لمحہ تیرا منتظر،
میرے محترم میرے معتبر،
اب وقت بہت ہے مختصر،
میں نظم و شعر کا کیا کروں،
میں سخن و ہنر کا کیا کروں،
جب تم کو غرض نہ واسطہ
ہوئے بے قدر میرے نظم و شعر
میرے کم سخن میرے بے ہنر،
اب وقت بہت ہے مختصر،
تیرے لوٹ آنے کی ہو خبر
میں شکستہ جاں تیری راہ پر
دیدہ و دل کو فرش کروں
میں جان و دِل کو کروں نذر
میرے محترم میرے معتبر
اب وقت بہت ہے مختصر
ازقلم: محمد اطہر طاہر
ھارون آباد
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں