تم نے بھول
جانے کا
ہنر کہاں سے
سیکھا ہے
تم نے بھول جانے کا
ہنر کہاں سے سیکھا ہے
تلخ بھی بول لیتے ہو
ساتھ چھوڑ دیتے ہو
ذات توڑ کر میری
بات چھوڑ دیتے ہو،
ہم نے تو تمہاری چاہ میں
عشق کی اندھی راہ میں
ہر نسخہ آزمایا ہے
ضبط کر کےبھی دیکھا ہے
صبر کر کے بھی دیکھا ہے
اپنی ذات پر ہم نے
جبر کرکے بھی دیکھا ہے
میں نے عظیم اسموں کا
ذکر کر کے بھی دیکھا ہے
تم کو بھول جانے کی
کوئی تدبیر نہ کام آئی
ہر عزم و تمنا ہار گئی
ہر کاوش بیکار گئی
ازقلم: محمد اطہر طاہر
ھارون آباد
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں