وہ بارشیں جو
تم سی تھیں
وہ بارشیں جو تم سی
تھیں
وہ تو کب کی خفا ہوئیں
نہ کرن ہے کوئی قرار کی
نہ امید کسی بہار کی
اب برکھا بادل بارش ہو
یا صحرا دھوپ تمازت ہو
جب سے تو ہم سے بچھڑ گیا ہے
اس دل کا موسم ٹھہر گیا ہے
دل کی جگہ اب درد بھرا ہے
بارشیں آگ ہوں جیسے
اُجڑے سہاگ ہوں جیسے
ہوائیں بھی زہر لگتی ہیں
بلا کا قہر لگتی ہیں
خوبصورت موسم کی
ساعتیں بھی ڈستی
قہقہوں کی دنیا میں
اب سسکیوں کا موسم ہے
زندگی کی ہر ساعت
جس سے تم وابستہ تھے
موت کی آہٹ ہے
ازقلم: محمد اطہر طاہر
ھارون آباد
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں