تم اپنے ستم
روا رکھو
تم اپنے ستم روا رکھو
ہمیں خود سے جدا رکھو
سوال آہوں پہ بھی ہوگا
حساب اشکوں کا بھی ہوگا
وہاں کا حوصلہ رکھو
خدا کو بھی گواہ رکھو
میرے مر مر کے جینے کا
ہنس ہنس کے آنسو پینے کا
دکھ سہنے لبوں کو سینے کا
ذرا بھی نہ پتا رکھو
نہ ہی کوئی پرواہ رکھو
تم اپنے ستم روا رکھو
ازقلم: محمد اطہر طاہر
ھارون آباد
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں