میں وعدوں کا قیدی ہوں عہد سے مکر نہیں سکتا ازقلم: محمد اطہر طاہر
لنک حاصل کریں
Facebook
X
Pinterest
ای میل
دیگر ایپس
تبصرے
اس بلاگ سے مقبول پوسٹس
یہ کیا سمجھ رکھا ہے خود کو؟ یہ کیسے تلخ لہجے میں تم مجھ سے بات کرتی ہو, کبھی بے مقصد باتوں پر یوں الجھتی رہتی ہو کبھی بے معنی لفظوں سے یوں بھڑکتی رہتی ہو کہ جیسے ہر اک جذبے کو جلا کے راکھ کردو گی کبھی ہمراہ چلنے پر شرطیں باندھ دیتی ہو کبھی ملنے کا جو کہہ دیں تو افسانے سناتی ہو, بہانے سو بناتی ہو جوازوں کی تقاضوں کی قطاریں باندھ دیتی ہو یہ بھی کہتی ہو کہ تم بن جینا مشکل ہے مجھے تم چھوڑ دینے کی تعلق توڑ لینے کی کبھی تم بات کرتی ہو, تو سن لو غور سے گڑیا تعلق ٹوٹ جانے سے وقت ٹھہر نہیں جاتا, کوئی مر نہیں جاتا تخلیق محمد اطہر طاہر Haroonabad
تمہی وہ اک مسیحا ہو تمہی وہ اک مسیحا ہو جو میرے دل کی دھڑکن کو ذرا ترتیب دیتے ہو میں جب بھی ٹوٹ جاتا ہوں تو تیرا مرہمی لہجہ مجھے پھر جوڑ دیتا ہے تیرا چہرہ تیری صورت شفاءِ دردِ دل بن کر میرے رِستے زخموں پر یوں شبنم گراتی ہے جیسے روح لوٹ آتی ہے تحریر: محمد اطہر طاہر
میری جاناں میں شرمندہ ہوں شرمندہ ہوں اس محبت پر اور خود کی حماقت پر کہ تم سے دل لگا بیٹھے اور تیری محبت میں دنیا کو بھلا بیٹھے تم... کہ کم ظرف ٹھہرے تم... کہ تنگ نظر ٹھہرے تم... کہ بدگماں ٹھہرے یہ کیسی بھول ہوئی ہم سے تمہیں پہچان نہیں پائے کہ تم کو جان نہیں پائے Poet: محمد اطہر طاہرBy: Athar Tahir, Haroonabad
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں