یہ کیا سمجھ رکھا ہے خود کو؟
یہ کیسے تلخ لہجے میں
تم مجھ سے بات کرتی ہو,
کبھی بے مقصد باتوں پر یوں الجھتی رہتی ہو
کبھی بے معنی لفظوں سے یوں بھڑکتی رہتی ہو
کہ جیسے ہر اک جذبے کو جلا کے راکھ کردو گی
کبھی ہمراہ چلنے پر شرطیں باندھ دیتی ہو
کبھی ملنے کا جو کہہ دیں
تو افسانے سناتی ہو, بہانے سو بناتی ہو
جوازوں کی تقاضوں کی قطاریں باندھ دیتی ہو
یہ بھی کہتی ہو کہ تم بن جینا مشکل ہے
مجھے تم چھوڑ دینے کی تعلق توڑ لینے کی
کبھی تم بات کرتی ہو,
تو سن لو غور سے گڑیا
تعلق ٹوٹ جانے سے 
وقت ٹھہر نہیں جاتا, کوئی مر نہیں جاتا


ازقلم: 
محمد اطہر طاہر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس