پردیس میں عید
ہم وطن سے دور ہیں
رہنے پر مجبور ہیں
عید کے دن کی ساری خوشیاں
آنسوؤں میں بہہ جائیں گی
دل کی دل میں رہ جائیں گی
مماں بابا کی شفقتیں
بہنوں بھائیوں کی چاہتیں
بس سپنوں میں مل پائیں گی
سپنوں میں محسور ہیں
ہم وطن سے دور ہیں
رہنے پر مجبور ہیں
محفل میرے یاروں کی
رونق گلیوں بازاروں کی
سیر سپاٹے, شور شرابا
بیٹھک جگر کے پاروں کی
بس خوابوں کی باتیں ہیں
خوابوں میں مسرور ہیں
ہم وطن سے دور ہیں
رہنے پر مجبور ہیں
ازقلم:
محمد اطہر طاہر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں