یہ کیا سمجھ رکھا ہے خود کو؟ یہ کیسے تلخ لہجے میں تم مجھ سے بات کرتی ہو, کبھی بے مقصد باتوں پر یوں الجھتی رہتی ہو کبھی بے معنی لفظوں سے یوں بھڑکتی رہتی ہو کہ جیسے ہر اک جذبے کو جلا کے راکھ کردو گی کبھی ہمراہ چلنے پر شرطیں باندھ دیتی ہو کبھی ملنے کا جو کہہ دیں تو افسانے سناتی ہو, بہانے سو بناتی ہو جوازوں کی تقاضوں کی قطاریں باندھ دیتی ہو یہ بھی کہتی ہو کہ تم بن جینا مشکل ہے مجھے تم چھوڑ دینے کی تعلق توڑ لینے کی کبھی تم بات کرتی ہو, تو سن لو غور سے گڑیا تعلق ٹوٹ جانے سے وقت ٹھہر نہیں جاتا, کوئی مر نہیں جاتا تخلیق محمد اطہر طاہر Haroonabad
ہم تو مرد ہیں جاناں بڑے بے درد ہیں جاناں سپنے بھول جاتے ہیں وعدے توڑ جاتے ہیں جو ہم سے پیار کر بیٹھے اُسی کو چھوڑ جاتے ہیں مردانگی کے پتھروں سے کچل دیتے ہیں پھولوں کو کہاں ہم یاد رکھتے ہیں محبت کے اصولوں کو ہمیں سب لوگ کہتے ہیں مرد کو درد نہیں ہوتا جس کو درد ہوتا ہے شاید وہ مرد نہیں ہوتا سو ہم تو مرد ہیں جاناں بڑے بے درد ہیں جاناں ازقلم: محمد اطہر طاہر
تم کو یاد ہے جاناں؟ کہ وہ عید کا دن تھا بھری امید کا دن تھا وہ تیری دید کا دن تھا میں تیرے پاس آیا تھا گلے تجھکو لگایا تھا میری زندگی میں بس وہی اک عید کا دن تھا ورنہ زندگی بھر میں نہ پہلے عید آئی تھی نہ اس کے بعد آئی ہے ازقلم: محمد اطہر طاہر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں