اشاعتیں

2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
میری پرواز چھین کر   کچھ اس طرح سے ستمگر نے وار کیے ہیں احسان مجھ پہ اُس نے بے شمار کیے ہیں قفس میں قید کر لیا میری آواز چھین کر پھر آزاد کردیا میری پرواز چھین کر ازقلم محمد اطہر طاہر  ہارون آباد
اک اجنبی دلربا ہوا   مجھے چوم کر مجھے تھام کر وہ اس ادا سے فدا ہوا وہ اجنبی دلربا ہوا میری رنجشیں میری شدتیں اُسی ایک پل میں ہَوا ہُوئیں میری تشنگی کو مٹا گیا وہ اس ادا سے فدا ہوا وہ اجنبی دلربا ہوا اس کی نگاہِ لطف سے یہ کیسا جادو بکھر گیا میں گمنام سا شخص تھا میں ہر زباں سے ادا ہوا وہ اس ادا سے فدا ہوا وہ اجنبی دلربا ہوا   ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد
ہر التجا میں تم ہی تم میری ہر التجا میں تم ہی تم میری ہر دعا تیرے نام ہے تمہیں سوچنا تمہیں ڈھونڈنا یہی مشغلہ ہے یہی کام ہے میرے روز و شب میں تو ہی تو تو ہی خواب و خیال میں روبرو میرے عشق کا یہ مزاج ہے تیرا ذہن و دل میں قیام ہے   ازقلم: محمد اطہر طاہر
پتھروں سے بھی سخت یہ جان ہماری ہے پتھروں سے بھی سخت یہ جان ہماری ہے اُن کو کھو بھی دیا زندگی بھی جاری ہے اس دل سا کوئی منافق شاید کہیں نہ ہو جن سے زخم کھائے ہیں اُنہی کی طرف داری ہے     ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد  
زندگی آزار سہی زندگی آزار سہی جینا دشوار سہی طے تو کرنا ہوگا سفر گراں بار سہی سکونِ قلب و نظر کہیں تو میسر ہو درِ یار نہیں تو کیا، تختہءِ دار سہی   ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد
سنو اے پتھر کی گڑیا   سنو اے پتھر کی گڑیا سنو اے زہر کی پُڑیا تمہیں اس دور کے اندر اک مجنوں ملا تھا ناں؟ اک رانجھا ملا تھا ناں؟ قدم دو چار ہی چل کے اسے پھر کھو دیا تم نے؟ تیری خوش بختی پر صدقے کہ ہوس کی بھوکی دنیا میں تم نے مجنوں کو پایا تھا تیری بدبختی پر ہائے کہ تم نے کھو دیا اس کو     ازقلم: اطہر طاہر ھارون آباد  
میں تیری محبت کو طلاق لکھ رہی ہوں   ہر اک خواہش ہر تمنا کو خاک لکھ رہی ہوں میں تیری محبت کو طلاق لکھ رہی ہوں صدیوں کی بے معنی رفاقت کا جنازه نکال کر میں ہوں باغی محبت سے بے باک لکھ رہی ہوں محبت کے نام پر ہیں یہ نامحرموں کے دھوکے میں نسل نو کے واسطے اسباق لکھ رہی ہیں خوش رنگ تتلیاں بے بال و پر ہیں کیوں کر کلی ہوتی ہے آخر کیوں خس و خاشاک لکھ رہی ہوں عصمت جو بچ سکے نہ کچھ رہتا نہیں باقی میں جھوٹی لذتوں کو ناپاک لکھ رہی ہوں میری بہنوں بچ کے رہنا نہ زندہ لاش ہونا یہ معاشرہ ہے کتنا سفاک لکھ رہی ہوں نوٹ: یہ غزل بہنوں کیلئے مؤنث صیغہ میں لکھی گئی ہے جبکہ تخلیق محمد اطہر طاہر کی ہے۔    
ہر یاد کو میں نے جلا دیا تیری تحریریں سب تصویریں ہر یاد کو میں نے جلا دیا تیری آبرو پر آنچ نہ آئے کوئی تم پر انگلی نہ اٹھائے اپنے دل کو پتھر کرکے میں نے خود کو فنا کیا ہر یاد کو میں جلا دیا ازقلم: اطہر طاہر ھارون آباد  
تم نے بھول جانے کا ہنر کہاں سے سیکھا ہے تم نے بھول جانے کا ہنر کہاں سے سیکھا ہے تلخ بھی بول لیتے ہو ساتھ چھوڑ دیتے ہو ذات توڑ کر میری بات چھوڑ دیتے ہو، ہم نے تو تمہاری چاہ میں عشق کی اندھی راہ میں ہر نسخہ آزمایا ہے ضبط کر کےبھی دیکھا ہے صبر کر کے بھی دیکھا ہے اپنی ذات پر ہم نے جبر کرکے بھی دیکھا ہے میں نے عظیم اسموں کا ذکر کر کے بھی دیکھا ہے تم کو بھول جانے کی کوئی تدبیر نہ کام آئی ہر عزم و تمنا ہار گئی ہر کاوش بیکار گئی   ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد
باشعور بیٹی میں دورِ جہالت کی وہ چڑیا نہیں ہوں کہ کہیں بھی کوئی بھی مجھ کو یونہی قربان کر ڈالے میں بیٹی محمدؐ کی محافظ اپنی عصمت کی میں جان دینا بھی جانتی ہوں میں جان لینا بھی جانتی ہوں اگر تو ابنِ آدم ہے تو میں بنتِ محمد ہوں اگر تو حاکم ہے مجھ پر تو میں بھی تم پر رحمت ہوں جہاں دینِ محمدؐ نے مجھ پر گرہیں لگائی ہیں وہاں باعزت جینے کو مجھے سو حق بھی بخشے ہیں   ازقلم:    محمد اطہر طاہر
اب وقت بہت ہے مختصر   میرے محترم میرے معتبر، تمہیں ہے پتا؟ کوئی ہے خبر؟ کہ سانسیں کتنی قلیل ہیں، کہ وقت ہے کتنا مختصر؟ پتھرا گئے کبھی برس گئے، تیری دید کو دیدے ترس گئے، نہ اناؤں کی ہی نہ بقا رہی، نہ خودی کو خود کی رہی خبر، میرے محترم میرے معتبر، اب وقت بہت ہے مختصر، اس مختصر سے وقت میں، تو اپنی موج و مست میں، میرا روم روم تیرے درد میں میرا ہر لمحہ تیرا منتظر، میرے محترم میرے معتبر، اب وقت بہت ہے مختصر، میں نظم و شعر کا کیا کروں، میں سخن و ہنر کا کیا کروں، جب تم کو غرض نہ واسطہ ہوئے بے قدر میرے نظم و شعر میرے کم سخن میرے بے ہنر، اب وقت بہت ہے مختصر، تیرے لوٹ آنے کی ہو خبر میں شکستہ جاں تیری راہ پر دیدہ و دل کو فرش کروں میں جان و دِل کو کروں نذر میرے محترم میرے معتبر اب وقت بہت ہے مختصر     ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد  
سانحہ ساہیوال ہم نے سمجھا کہ امن کے پیکر آئے وہی جانباز ہاتھوں میں لئے خنجر آئے ہائے! جنھیں ہم نے محافظ سمجھا لیے موت کے پروانے مقابل وہ بہادر آئے مر کے بھی جسے سوچ نہیں سکتا کوئی جاگتی آنکھ میں ہیں ایسے منظر آئے رقص کرنے لگی ہے وحشت ہر سو آنکھ میں اشکوں کے سمندر آئے ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد    
کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں کسی کے خواب بکھر جائیں کسی کی منزل کھو جائے کوئی ہنس ہنس کے جیتا ہو کوئی غم کے آنسو پیتا ہو گمشده سے بہتر مل جائے وقت جتنا بھی بدل جائے جذبات کو بدل نہ پائے یہ سب کتابی باتیں ہیں وقت زخموں کا مرہم ہے تا عمر رلانے والے بھی کچھ درد ایسے ہوتے ہیں تا حشر جگانے والے بھی کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں کبھی مندمل نہیں ہوتے کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں قیامت تک نہیں بھرتے ہمیشہ تازہ رہتے ہیں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مرہم سے نہیں بھرتے نشتر سے شفا ہو جاتی ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو مرہم سے ہی لگتے ہیں اور موت کی آخری ہچکی کا سبب وہ زخم بنتے ہیں وہ برزخ تک لے جاتے ہیں کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں   ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد
عشق دوبارہ ہو گیا دکھ کی دوا مل ہی گئی میرے غم کا چارا ہوگیا اک تارا ہم سے بچھڑا تھا پورا چاند ہمارا ہوگیا شب و روز کے سوز کو الودع کوئی جان سے پیارا ہوگیا پھر زندگی میں رنگ ابھرے مجھے عشق دوبارہ ہوگیا     ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد  
  مجھے تم چپ ہی رہنے دو   مجھے تم چپ ہی رہنے دو یہ تیرے حق میں بہتر ہے میرا ہر بول خنجر ہے میرا ہر لفظ نشتر ہے میرے لہجے کی تلخی سے تم بچ نکلو تو بہتر ہے اب ! کہ اتنازہر ہے مجھ میں میں دنیا پھونک دوں ساری تیرے ہجر نے جاناں مجھے سوغات بخشی ہے اُجلے روشن دن کے بدلے زہریلی رات بخشی ہے عبرتِ نگاہ بخشی ہستیءِ فنا بخشی چھین کر خوش خلقی اور سلیقہءِ زندگی بدمزاجی سونپ دی اب کہ...! اِس بدمزاجی سے اُس شگفتہ مزاجی تک صد ہزار سالوں کا فاصلہ ہے آسیبوں کا عمر کٹ تو سکتی ہے فاصلہ نہیں کٹتا تم ہوکہ مل نہیں سکتے مزاج کہ بدل نہیں سکتا مجھے تم چپ ہی رہنے دو   ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد  
  ہم اتنے سستے نہیں بتایا تو تھا کہ ہم اتنے سستے نہیں جھوٹے دلوں میں ہم بستے نہیں من ہُوا آگئے من ہُوا چل دیے ہم گلیاں نہیں ہم رستے نہیں ہماری فطرت میں شامل ایثار ہے کسی کو اپنا بنا کے ہم ڈستے نہیں لٹا دیں بہاریں زندگی بھر کی ہم پھول پتیاں نہیں گلدستے نہیں بے رُخی تمہاری مبارک تمہیں ہماری خودی کے دام سستے نہیں تیری منت سماجت کریں کس طرح جگر خستے نہیں انا شکستے نہیں   ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد  
دن کی روشنی میں تارے دکھا دیے جس پہ مان ہمارا تھا جو جینے کا سہارا تھا رات کے اندھیروں میں جو چمکتا ستارہ تھا زخم جلا دیے اس نے وعدے بھلا دیے اس نے اور دن کی روشنی میں تارے دکھا دیے اس نے   ازقلم محمد اطہر طاہر ھارون آباد    
پانچواں دسمبر "پانچواں دسمبر" صنم تیری جدائی کا یہ پانچواں دسمبر ہے تیرے میرے بیچ میں یہ ساتواں سمندر ہے میری تیرہ بختی کا وہ دو ہزار تیرہ تھا صد ہزار سالوں کا یہ پانچواں دسمبر ہے ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد    
میری چندا سلامت رہے اے خدا میری چندا سلامت رہے ہنستی مسکراتی تا قیامت رہے مقدر اسکا چمکے جیسے سحر و قمر شادمانی چہرے کی علامت رہے     ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد  
میرے ٹیگ کرنے پر میرے ٹیگ کرنے پر ہوئے وہ اسقدر نالاں ہمیں معلوم نہیں تھا جرم سنگین کتنا ہے ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد  
  کمنٹ کرنا ختم ٹیگ لگانا ختم کمنٹ کرنا ختم ٹیگ لگانا ختم تیری ٹائم لائن پہ اب آنا جانا ختم سرچ کرنا تجھے فرینڈ لسٹ ٹٹولنا تیرے فرینڈز کو میوچل بنانا ختم تیرے ظلم و ستم ہر جفا الوداع تیرے لفظوں کو دل سے لگانا ختم   ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد  
وہ بارشیں جو تم سی تھیں   وہ بارشیں جو تم سی تھیں وہ تو کب کی خفا ہوئیں نہ کرن ہے کوئی قرار کی نہ امید کسی بہار کی اب برکھا بادل بارش ہو یا صحرا دھوپ تمازت ہو جب سے تو ہم سے بچھڑ گیا ہے اس دل کا موسم ٹھہر گیا ہے دل کی جگہ اب درد بھرا ہے بارشیں آگ ہوں جیسے اُجڑے سہاگ ہوں جیسے ہوائیں بھی زہر لگتی ہیں بلا کا قہر لگتی ہیں خوبصورت موسم کی ساعتیں بھی ڈستی قہقہوں کی دنیا میں اب سسکیوں کا موسم ہے زندگی کی ہر ساعت جس سے تم وابستہ تھے موت کی آہٹ ہے     ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد  
آنکھیں ہی نکال کر لے گیا اک پل میں راکھ ہوگیا جو صدیوں کا سرمایہ تھا آنکھیں ہی نکال کر لے گیا وہ جو آنسو پونچھنے آیا تھا     ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد  
تضادِ محبت   تضادِ محبت عجیب اک فرق تھا ہم دونوں کی محبت میں مجھے اپنی زندگی کی تمام ضروریات سے پہلے جسم و جان سے پہلے، اپنی ہر سانس سے پہلے فقط اس کی ضرورت تھی اور اس کے برعکس اس کو تمام ضروریات آسائیشات و تعیشات معاشرے میں مقامِ بالا اس پر بھی کچھ شرائط اس سے بھی بہت بعد شاید "میں" شاید یہ محبت تھی شاید یہ اک سودا تھا     ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد  
تیرے سر کا تاج نہیں تو کیا   تیرے نقشِ پا کی خاک تھا وہی خاک ہی ہوں آج بھی میرا وجودِ خاک کہیں سہی تیرے نام ہی ہوں آج بھی تیرے سر کا تاج نہیں تو کیا تیرا کل تھا آج نہیں تو کیا مجھے روند دے یا مسل دے تیرے ہاتھ ہی ہوں آج بھی   ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد    
  تم اپنے ستم روا رکھو تم اپنے ستم روا رکھو ہمیں خود سے جدا رکھو سوال آہوں پہ بھی ہوگا حساب اشکوں کا بھی ہوگا وہاں کا حوصلہ رکھو خدا کو بھی گواہ رکھو میرے مر مر کے جینے کا ہنس ہنس کے آنسو پینے کا دکھ سہنے لبوں کو سینے کا ذرا بھی نہ پتا رکھو نہ ہی کوئی پرواہ رکھو تم اپنے ستم روا رکھو   ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد  
پھولوں جیسے نازک پیکر پھولوں جیسے نازک پیکر دل میں خار چبھو جاتے ہیں عشق سفر میں چھوڑ کے تنہا اور کسی کے ہو جاتے ہیں   تجدیدِ ستم جو چاہو تو ملا کر خاک میں ہم کو ستم گر دیکھتے کیا ہو؟ تجدیدِ ستم جو چاہو تو یہ مٹی پھر سے حاضر ہے Poet Muhammad Athar Tahir  
متفرق اشعار وہ قابل چار حرفوں کا ہم دیوان لکھتے رہ گئے *** تو میری وفا کی لاج رکھ میرا عشق تم پر تمام شد *** تیرے نال جد یاری نیں رہیی سانوں وی جند پیاری نیں رہیی *** کی لکھاں تے کی پڑھاں کتاباں اُتے قابض توں ایں *** اس شہرِ اُلفت میں یہ بزمِ محبّت ہے اس بزم کی رونق کو اک تیری ضروت ہے *** وہ کہتی ہے مجھے اب کوئی خواہش نہیں رہی میں کہتا ہوں محترمہ یہ بڑھاپے کی نشانی ہے ازقلم: محمد اطہر طاہر   کم ظرف کمظرف، تنگ نظر، بدگمان، خودغرض بہت چھوٹے ہیں یہ لفظ تیرے معیار سے ازقلم: محمد اطہر طاہر ھارون آباد   دنیا بھی اشکبار ہوئی میرے الفاظ کو سُن کر دُنیا بھی اَشکبار ہوئی مگر وہ پتھر کا جگر ڈھل سکا نہ پگھل سکا ازقلم: محمد اطہر طاہر مجھے شاعر بنا ڈالا اک فائدہ تو ہوا ہمیں بھی ٹوٹ جانے کا وقت کے بہتے دھارے نے تجھے قائر بنا ڈالا ہمیں شاعر بنا ڈالا ازقلم: محمد اطہر طاہر