اشاعتیں

جون, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
تصویر
عورت ذات ہو، تم تو چلا بھی سکتی ہو آنسوؤں سے پتھروں کو پگھلا بھی سکتی ہو تم تو رو بھی سکتی ہو، دکھوں کو دھو بھی سکتی ہو میں تو مرد ہوں جاناں، مجھے رونا نہیں آتا دکھ دھونا نہیں آتا جب کوئی مرد روتا ہے تو زمانہ ہنستا ہے ارے یہ مرد کیسا ہے؟ مرد ہو کے روتا ہے؟ یہ کیسے بلبلاتا ہے؟ اسے رونا بھی نہیں آتا؟ دکھ دھونا نہیں آتا ہمیں پگھلنا بھی آتا ہے، بکھر جانا بھی آتا ہے پروانے کی مانند ہم جو جل جانا بھی آتا ہے ہمیں تڑپنا آتا ہے اور مرجانا بھی آتا ہے ہمیں سسکنا تو آتا ہے، مگر رونا نہیں آتا دکھ دھونا نہیں آتا بھلے تم چیر کے رکھ دو تب بھی رو نہیں سکتے موتی آنسوؤں کے ہم کبھی بھی کھو نہیں سکتے نشانی یار کی ہیں یہ، زمیں پر بو نہیں سکتے دکھوں کو دھو نہیں سکتے بھلے مرنا پڑے ہم کو، ضبط کو قائم رکھتے ہیں رونق اپنے چہرے پر بظاہر دائم رکھتے ہیں ہم تو مرد ہیں جاناں، ہمیں رونا نہیں آتا دکھ دھونا نہیں آتا Poet: محمد اطہر طاہر By: Athar Tahir, Haroonabad
تصویر
یہ کیا سمجھ رکھا ہے خود کو؟ یہ کیسے تلخ لہجے میں تم مجھ سے بات کرتی ہو, کبھی بے مقصد باتوں پر یوں الجھتی رہتی ہو کبھی بے معنی لفظوں سے یوں بھڑکتی رہتی ہو کہ جیسے ہر اک جذبے کو جلا کے راکھ کردو گی کبھی ہمراہ چلنے پر شرطیں باندھ دیتی ہو کبھی ملنے کا جو کہہ دیں تو افسانے سناتی ہو, بہانے سو بناتی ہو جوازوں کی تقاضوں کی قطاریں باندھ دیتی ہو یہ بھی کہتی ہو کہ تم بن جینا مشکل ہے مجھے تم چھوڑ دینے کی تعلق توڑ لینے کی کبھی تم بات کرتی ہو, تو سن لو غور سے گڑیا تعلق ٹوٹ جانے سے  وقت ٹھہر نہیں جاتا, کوئی مر نہیں جاتا ازقلم:  محمد اطہر طاہر

یار دے ہَتھ مُہاراں

یار دے ہتھ مہاراں   اَساں نہ یار بدل دے لوکو ساڈے پِچھے پِھرن ہزاراں نہ بھُکے شُہرت دولت دے نہ ویکھیے بنگلے کاراں اساں تَن مَن یار تے وار دِتّا ساڈیاں یار دے ہَتھ مُہاراں ازقلم :  محمد اطہر طاہر

عشق اوہدے وچ ہوگئے جَھلّے

عشق اوہدے وچ ہوگئے جَھلّے ہُن نیں پیندا ککھ وی پَلّے حِفظ کتاباں بُھل وی گئیاں پینڈے سکُول دے بُھل وی چَلّے رونق میلے لگدے سُنجے سَکِھیاں دے وَچکار وی کَلّے ازقلم:  محمد اطہر طاہر

تاکیدِ وعدہ

یہی تاکیدِ وعدہ تھی  کہ رازِ محبت کو عیاں ہونے نہیں دینا آنسوؤں میں بہنا یا جل جانا سلگ جانا دھواں ہونے نہیں دینا ازقلم:  محمد اطہر طاہر

تم نے آغازِ سفرِ نو کیا ہے

تم نے تو آنکھوں کو بند کرکے  آغازِ سفرِ نو کیا ہے مگر میری آنکھوں کا کیا ہو؟؟  یہ بند رہ کر بھی دیکھتی ہیں ازقلم:  محمد اطہر طاہر

مر مر کے پھر بھی مر رہا ہے اپنے ہی زہر میں

رسی کی طرح جل کر بھی بل نہ گئے ظالم کے مر مر کے پھر بھی مر رہا ہے اپنے ہی زہر میں دل میرا اُسی کا گھر تھا جلایا ہے اپنے ہاتھوں  سلگ سلگ کے جل رہا ہے وہ اپنے ہی قہر میں ازقلم:  محمد اطہر طاہر

میں وعدوں کا قیدی ہوں

وہ میری دسترس میں ہے  مگر کچھ کر نہیں سکتا میں وعدوں کا قیدی ہوں  عہد سے مکر نہیں سکتا ازقلم:  محمد اطہر طاہر

جو ہوسکے تو لوٹ آ

اَنا یہ کہتی ہے اُن سے کہہ دو دل ہمارا سنبھل چکا ہے وقت ہمارا بدل چکا ہے کہیں تم واپس نہ لوٹ آنا دل یہ کہتا ہے ان سے کہہ دو ابھی وقت ہے جو ٹلا نہیں پتّہ تک بھی ہِلا نہیں میری چاہتوں کا سلسلہ  اُسی جگہ پر ہے رکا ہوا  جو ہوسکے تو لوٹ آ جو ہوسکے تو لوٹ آ ازقلم:  محمد اطہر طاہر

سگریٹ

وہ کہتی تھی اگر تم نے  کبھی سگریٹ جلائی تو،  بس اتنا یاد رکھنا تم وہ سگریٹ نہیں ہوگی،  تم میرا دل جلاؤ گے،، اگر تم دل جلاؤ گے میں تم کو بھول جاؤنگی،،  مگر۔۔۔!  نہ سگریٹ جلائی ہے نہ ہی دل جلایا ہے،،  اُن کی چاہت میں ہم نے اپنا آپ گنوایا ہے،،  اب ماہ و سال بیتے ہیں،  وہ ہم کو بھول بیٹھے ہیں،،  کوئی اُن سے یہ پوچھے  اب سگریٹ کی اجازت ہے؟؟  یا یونہی منتظر بیٹھوں  میں کب تک منتظر بیٹھوں؟؟ ازقلم:  محمد اطہر طاہر

اگر تیری عزت کی پرواہ نہ ہوتی

اگر تیری عزت کی پرواہ نہ ہوتی  تو کسی کی مجال کیا تھی؟؟  کہ وہ مجھ پر زبان چلات  میں زبان نہ اُس کی کھینچ لیتا؟؟  اگر تیری عزت کی پرواہ نہ ہوتی وہ شکل کے کوجے کمّی کمینے  جہالت کے منبے عقل کے اندھے  زبان کے گندے بے غیرت کہیں کے عقل ایسی دیتا کہ انکھیں کھل جاتیں  اگر تیری عزت کی پرواہ نہ ہوتی  کہیں خود کو استاد استادی دکھائیں بدتمیزوں کے بچے بدتمیزی سکھائیں  تمیز ان کو سکھاتا سبق ایسا پڑھات  کہ وہ سات نسلوں تک نہ بھول پاتے  اگر تیری عزت کی پرواہ نہ ہوتی۔۔ ازقلم:  محمد اطہر طاہر

اے میرے عہد شِکن ساتھی

اے میرے عہد شِکن ساتھی،، اے میرے بچھڑے ہوئے دلبر!  مجھے معلوم تھا تب سے،،، جب ہم ساتھ چلتے تھے،،  کہ چمکتی چیز دیکھو گے،  تو تم بدل ہی جاؤگے،،  ذرا سی مشکل دیکھو گے  تو تم ڈر ہی جاؤ گے،،  پل میں تولہ پل میں ماشہ  تب بھی تو تھا یہی تماشہ،، سو اب تیرا بدل جانا،  یہ نئی بات نہیں ہے،،  وفا نبھائے جو عورت وہ عورت ذات نہیں ہے،، ازقلم:  محمد اطہر طاہر

محبت چھوڑ دی میں نے

میں بالکل بدل گیا ہوں  وہ آنسو وہ آہیں وہ التجائیں  وہ تیرے نام کی ساری دعائیں  تمہیں سوچنا تمہیں  دیکھنا  تمہیں فیسبک پر ڈھونڈنا یہ سباب ماضی کا حصہ ہے ہماری وہ رفاقت اب اک بھولا بسرا قصہ ہے  میرے سپنوں میں اب تو کوئی یاد نہیں باقی  میرے اپنے لوگوں میں  تمہارا نام نہیں باقی  روایت توڑ دی میں نے  محبت چھوڑ دی میں نے  مگر پھر بھی نہ جانے کیوں  یہ کمبخت میرا دل  تمہارے نام پہ آکر دھڑکنا بھول جاتا ہے ازقلم:  محمد اطہر طاہر

لاکھ قسمیں ہزار وعدے

لاکھ قسمیں ہزار وعدے پھر بھی بدل گئے ارادے بدل جانے کے طور طریقے کوئی ہم کو بھی سکھا دے ازقلم:  محمد اطہر طاہر

زخم ناسور ہوگئے

تب لوٹ بھی آؤ گے، تو کیا ہو پائے گا؟؟  جب درد کافور ہوگئے زخم ناسور ہوگئے ازقلم:  محمد اطہر طاہر

تیرا مضطرب تیرا منتظر

میری زندگی کا ہر ایک پل تیرا مضطرب تیرا منتظر کبھی مُڑ کے میرا حال دیکھ  کبھی آ ادھر میرے چارہ گر ازقلم:  محمد اطہر طاہر

میرا وجدان کہتا تھا

مجھے الہام ہوتا تھا میرا وجدان کہتا تھا چھٹی حس جو ہوتی ہے مجھے اکثر بتاتی تھی تمہارےخواب اونچے ہیں میرےتم ہو نہیں سکتے

ﺩﻟﻮﮞ ﭘﮧ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﯽ ﺯﺭﺩ ﻧﻘّﺎﺷﯽ

ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻝ ﺁﺯﺍﺭ ﻟﮩﺠﮯ ﺳﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﭘﮧ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﯽ ﺯﺭﺩ ﻧﻘّﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﻓﻦ ﺑﺲ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﯽ ﺟﯽ ﮐﻮ ﺟﻼﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﺮﺍﻍِ ﺟﺎﮞ ﺑﺠﮭﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺍﮎ ﻗﺎﺗﻞ ﮨﺮ ﺍﮎ ﺩﺷﻤﻦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﺍﺅ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻣﻨﮧ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﮯ ﺁﻧﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﻣُﮍ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮑﻨﺎ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﻭﻧﺪﺗﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﺲ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺳﯿﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﻓﻘﻂ ﺍﮎ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺗﺎ ﮨﮯ ﺳﻨﻮ ! ﯾﮧ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﻓﮩﻤﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﻨﮕﮍﯼ ﺑﻼﺋﯿﮟ ﺭﻗﺺ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﻨﮯ ﺩﻭ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﻭﺩﮬﯿﺎ ﺭﻧﮕﺖ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻧﯿﻠﮕﻮﮞ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺳﻨﮩﺮﯼ ﺑﺎﻝ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﺳﺎﯾﮧ ﺩﺍﺭ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﮭﻨﯽ ﭼﮭﺎﺅﮞ ﺩﮨﮑﺘﮯ ﮔﺎﻝ ﺗﯿﮑﮭﮯ ﺧﺎﻝ ﻭ ﺧﺪ ﮐﯽ ﻻﭦ ﺟﺎﺩﻭ ﺳﺎ ﺑﺪﻥ ﺗﯿﺮﺍ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﻤﺖ ﺗﯿﺮﮮ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﮧ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﻻﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﭼﮭﻮﮌﻭ ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﮩﺮﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﺧﺮﯼ ﮐﺐ ﮨﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺧﻨﺠﺮ ﮨﯿﮟ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﮨﻮﻧﭧ ﻗﺎﺗﻞ ﮨﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﺳﺮﻭﻗﺪ ﮨﯿﮟ ﺳﺮﺍﭘﺎ ﺳﺤﺮ ﭘﮩﻨﮯ ﭼﺸﻢِ ﻏﺰﺍﻻﮞ ﺳﻨﻮﺍﺭﮮ ﺩﻟﺮﺑﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺳﺨﺎﻭﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﮭﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺩﻟﻮﮞ ﺳﯽ ﺩﻭﻟﺘﯿﮟ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﭘﮧ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺩﮬﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﺍﻓﺴﺮﺩﮦ ﮔﺌﮯ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻗﯿﺪ ﮨﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﮧ ﺍﮎ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺴﺮ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﺍﺫﯾﺖ ﭨﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﯽ ﻣﺮﮮ ﻋﮩﺪ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺳﮯ ﺟﮍﯼ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﺟ