جنازہ نکلا ہے تہذیب کا
مردہ ضمیری کی حد ہوگئی ہے
فرنگی رسموں کو فروغ دے کر
یہ بیج کیسے بو رہے ہیں۔۔؟
خواب غفلت میں سو رہے ہیں
فراموش کرکے افکار و عقائد
کیوں جہنم کے ہو رہے ہیں۔۔؟
فرنگیوں کے نمائندوں نے
صنفِ نازک کو ورغلایا
اعتدالی کا سبق دے کر
مرد و زن کا فرق مٹایا
آزادیءِ نسواں کی راہ دکھائی
بنتِ حوا میداں میں آئی
حجاب و عفاف اتار پھینکا
جھجکی نہ سمٹی نہ ہی شرم آئی
اطراف میں ہے مایوسی چھائی
اے دانشورو۔! اے میرے رہبرو!
امید کیسی ہے اب نسل نو سے؟
By: M. Athar Tahir Haroonabad
یہ بارود اور تیزاب کی ہے آنچ سے بنی
رکھ دیتی ہے اپنوں کے ہی جگر اُبال کر
عورت کو ساتھ لینا بس یوں ہی سمجھیے
آستین میں رکھا ہو جیسے سانپ پال کر
زبان کی ہے دھار جیسے تیر اور تلوار
منہ میں رکھتی ہیں یہ نشتر سنبھال کر
جو ان کی آبرو پر تن من بھی وار دے
رکھ دیتی ہیں اُسی کی عزت اُچھال کر
کرتی ہیں وار اتراتی ہیں مسکا تی ہیں
مُلا کے ایمان کو خطرے میں ڈال کر
عورتوں سے معذرت کیساتھ۔۔
By: M. Athar Tahir
Haroonabad
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں