اشاعتیں

2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
محبتوں کے حسین گلشن کو، جانے کس کی نظر لگی تھی، عداوتوں کی بغاوتوں کی، آگ جیسے بھڑک چکی تھی، وفا نظروں سے گر چکی تھی، خون آنکھوں میں اتر چکا تھا، تو بدگمانی میں گھر چکا تھا، واہموں میں اُتر چکا تھا، الہام جیسے کہ ہو رہے تھے، کہ قیامت ہے آن پہنچی، بہاریں تڑپ رہی تھیں، ہوائیں چیخ رہی تھیں، خزائیں بپھرتی آ رہی تھیں، پتے بلکتے جا رہے تھے، اور تم کے بٹتے جا رہے تھے، پیچھے ہٹتے جارہے تھے، رفاقتوں کے وہ سارے موسم، تیرے قدموں میں پڑے تھے، پھول کلیاں ہاتھ جوڑے، سانس روکے گھٹنے ٹیکے، تیرے آگے جھکی کھڑی تھیں، بیلیں پھولوں کو گود لے کر، تیرے آگے بچھی پڑی تھیں، اشکوں میں ڈوبے تھے شجر، خون سے لتھڑی تھی رہگذر، رو رہی تھیں تتلیاں، باندھ باندھ کے ہچکیاں، تمہیں روک لینے کی آس میں، اک آڑ بن کے حصار میں، ننھے پروں کی زنجیر میں، تیرے گرد منڈلا رہی تھیں، بھنورے بھی چلا رہے تھے، درد سے بلبلا رہے تھے، خوں کے آنسو بہار رہے تھے، تم کو واپس بلا رہے تھے، وہ بھنبھنا کر یہ کہہ رہے تھے، اے شاہِ گلشن، اے جانِ گلشن، ہمارے ہستی پر تو رحم کر،
تصویر
اعترافِ جرمِ مردانگی : ہمیں مردانگی نے یہ عجب سوغات بخشی ہے گلوں کو روندتے جانا دلوں کو توڑتے جانا چہکتی تتلیوں کو پھولوں کے خواب دکھا کر اُنہیں دبوچ لینا اور پھر اُن کو نوچتے جانا اُن پہ عشق جتا کر دلوں میں پیار جگا کر پروں کو کاٹ لینا اور اُنہیں چھوڑتے جانا جفاؤں سے وفاؤں تک سارے باب پڑھا کر نیا رستہ دکھا کر رستہ بند کرنا اور بھولتے جانا تخیلق: محمد اطہر طاہر Haroonabad
تصویر
ہمارے ربط میں دلبر یہاں ہر چیز حائل ہے کبھی سروس معطل ہے کبھی کمزور سگنل ہے کبھی بجلی کی بندش ہے بیٹری بھی نامکمل ہے کبھی پیکج نہیں باقی  ابھی تو کال مشکل ہے ہمارے ربط میں دلبر یہاں ہر چیز حائل ہے.. کبھی بھیا کی آمد ہے کبھی پاپا ہیں گھر پر ہزاروں کام ہیں گھر کے مما بیٹھی ہیں سرپر ابھی تو بات نہیں ممکن ابھی میسج بھی مشکل ہے ہمارے ربط میں دلبر یہاں ہر چیز حائل ہے.. گلی میں رک نہیں سکتی میں چھت پر آ نہیں سکتی میں تیری دید کی خاطر کہیں بھی جا نہیں سکتی کہیں بھی آنے جانے پر پابندی بھی مکمل ہے ہمارے ربط میں دلبر یہاں ہر چیز حائل ہے.. تخیلق: محمد اطہر طاہر Haroonabad
تصویر
میرادل چاہتا ہے یہ  میں آنکھیں نوچ لوں اپنی کہ ان میں تیرے سپنے تھے جو تیرے خواب دیکھے تھے یادیں کھرچ دوں دل سے فنا کردوں میں ہستی کو جلادوں دل کی بستی کو لبوں کو چیر ڈالوں میں ان پہ تیرے نغمے ہیں جو تیرا نام لیتے ہیں زباں کو کھینچ دوں جڑ سے جو لبوں کا ساتھ دیتی ہے رگوں کو تارتار کروں کہ ان میں تم ہی بہتے تھے مٹادوں خال و خد اپنے تیرے لیے دمکتے تھے مگر اس روح کا میں کیا کروں کیسے کھینچوں اسے بدن سے اس پہ بس نہیں میرا میری تو روح ہی تم ہو تمہیں نے تو راہ بدلی ہے تمہاری چاہ بدلی ہے میرادل بھی بدل دیتے میرا دل کیوں نہیں  بدلا تخیلق: محمد اطہر طاہر Haroonabad